خرد مندوں سے کیا پوچھوں کہ میری ابتداءکیا ھے
کہ میں اس فکر میں رہتا ہوں ، میری انتہا کیا ھے
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے، بتا تیری رضا کیا ھے
مقامِ گفتگو کیا ھے اگر میں کیمیا گر ہوں
یہی سوزِ نفس ھے اور میری کیمیا کیا ھے
نظر آئیں مجھے تقدیر کی گہرائیاں اس میں
نہ پوچھ اے ہمنشیں مجھ سے وہ چشمِ سرمہ سا کیا ھے
اگر ہوتا وہ مجذوبِ فرنگی اس زمانے میں
تو اقبال اس کو سمجھاتا مقامِ کبریا کیا ھے
نوائے صبحگاہی نے جگر خوں کر دیا میرا
خدایا جس خطا کی یہ سزا ھے وہ خطاءکیا ھے ؟
علامہ محمد اقبالؒ - (1938-1877)
No comments:
Post a Comment
1 ♂ If you're asking a question click the Subscribe By Email link, below the comment form, to be notified of replies.
2 ♂Do NOT add links to the body of your comment as they will not be published.
3 ♂ Only the comments posted in ENGLISH will be approved.
4 ♂ If you have a problem check first the comments , maybe you will find the solution there.